آپ محدث العصر شیخ محب اللہ رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند ہیں اور اپنے والد ماجد کے تمام تصنیفی کاموں میں معاون رہے ۔اور پوری زندگی تن تنھا مدرسہ ۔مکتبہ اورتمام انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ،ان کے کارناموں میں سب سے پہلا یہی کارنامہ ہے ۔پھر علوم وفنون خصوصا اصول حدیث اور رجال میں نہایت پختہ ہیں ساری زندگی مدرسے میں مدرس بھی رہے اور اپنے بزرگوں کی قیمتی کتب جو مخطوطات کی صورت موجود تھیں ان کی حفاظت میں بڑی محنت کی کہ ہر ہر کتاب کو خوداپنے قلم سے خوش خط لکھا اور ہر ہر صفحے کی سونے سے بڑھ کر قدر کی اور ان کی توجہ اور محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ راشدی خاندان کا تمام علمی ورثہ(مکتبۃ العالیہ العلمیہ ،مدرسہ دارالرشاد ۔مخطوطات کی صورت میں) اب تک محفوظ ہے بلکہ مکتبہ میں نئی کتب کا بہت زیادہ اضافہ بھی کیااور مسلسل کر بھی رہے ہیں اور اپنے والد محترم کی بے شمار کتب کو اپنے بہترین خط میں بھی لکھا اور ان تعلیقات میں اضافہ جات بھی کئے ۔ان شاء اللہ جلد ہی راشدی
ان شاء اللہ کیونکہ اس پر کام سید انور شاہ راشدی حفظہ اللہ کر رہے ہیں والحمدللہ علی ذلک خاندان کی تمام عربی کتب شایع بھی ہوں گی ۔
اور جو مخطوطات راشدی خاندان کے بزرگوں نے بہت زیادہ رقم صرف کرکے مخلتف میں کاتبوں کو بھیج کر حاصل کئے تھے ان کو بھی محفوظ رکھا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ بعض لوگوں نے بعض مخطوطات چوری بھی کیئے جس کے بعد انھوں نے مخطوطات کی حفاظت میں اور کڑی نظر کر دی ۔
سندھ اور بیرون سندھ میں تبلیغ کی خاطر سفر بھی کئے ۔
شیخ محترم کے کل چار بیٹے ہیں ان میں تین بیٹوں کو حافظ قرآن بنایا اور دو بیٹوں کو درس نظامی کی مکمل تعلیم دلوائی اور اب وہ مدرسہ دارالارشاد اور مکتبہ وغیرہ کو احسن طریقے سے چلا رہے ہیں ۔
۔شیخ قاسم حفظہ اللہ ان دنوں فالج کی وجہ سے بیمار ہیں قارئین ان کے لئے خصوصی دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی ان کو مکمل شفا عطافرمائے آمین۔
بے شمار ھندو ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کا مستقل انتظام بھی کیا ۔
تصنیفی خدمات :
محترم نے کئی ایک مستقل کتب لکھیں مثلا
مرآۃ الشیعۃ
الرد علی التقلید
التحقیق المستحلی فی تحقیق ان عد الاذکار بالسبحۃ ھل ھو من المباحاۃام ھو من البدع السفلی
اورایک جی ایم سید سندھی شخص کے رد پر کتاب لکھی ہے۔
اور بے شمارتحقیقی موضوعات مختلف رسائل میں شایع ہوئے جن کو جمع کر کے کتابی شکل میں شایع کیا جائے گا ان شاء اللہ
No comments:
Post a Comment