Tuesday, 26 February 2013

تصانیف المحدث العلامۃ سید رشداﷲ شاہ راشدی رحمہ اللہ





شیخ رشداللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ اپنے دور کے بہت بڑے محدث تھے جن کی مختلف میدان میں قابل رشک خدمات ہیں اس مضمون میں ان کی قیمتی ترین ۳۴تصانیف کے نام پیش خدمت ہیں یاد رہے ان تمام کتب میں صرف ایک کتاب شایع ہوئی باقی تمام کتب مخطوطات ہیں جن پر 
سید انور شاہ راشدی حفظہ اللہ تحقیقات کر کے شایع کریں گے ان شاٗ اللہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اسرۃ راشدیۃ قدیمۃ جدا مضی فیھا کثیر  من العلمائ والمحدثین والمصنفین والمبلغین الآن انا اذکر
 مولفات الشیخ الامام الاجل السید رشداللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ جد الشیخ بدیع الدین و محب اللہ رحمھما للہ
وکان مصنفا بالغا و ولہ تالیفات مفیدۃ جدا فی العربیۃ والسندیۃ و الفارسیۃ والاردیۃ لکن مع الاسف ما طبع منھا الا واحدا الی الآن ۔کل مخطوطات المصنف رحمہ اللہ محفوظۃ عند الشیخ السید قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ الآن اخونا السید انور شاہ راشدی رحمہ اللہ یعمل علی کتب محدثی اسرتہ و سیطبع کل کتاب ان شائ اللہ۔
ھذہ فھرس کتب الشیخ رشداللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ


فصل الخطاب فی ارشاد المعزی والمصاب ۔ فارسی ۔مسائل


 اللمعات ۔تصوف۔سندھ


 ملفوظات ۔ المسمیٰ ۔ تنویرالقلوب وصراط المطلوب ۔سندھی

 متوی متعلق بالذبح ۔عربی وفارسی
 الأعجوبۃ الرضیۃ ۔عربی
القریٰ لمصلی الجمعۃ فی المدن والقری۔عربی الرل علی الأحناف
 کتاب الأعلام بروایۃ الامام ابی حنیفۃ۔عربی رجال
 بیاض سید رشداﷲ شاہ ۔عربی 
درج الدرر فی وضع الایدی علی الصدر ۔عربی الرد علی کتاب
درھم الصرۃ فی وضع الیدین تحت السرۃ۔ وھوکتاب نفیس
 کشف الحقیقۃ عن احکام العقیقۃ ۔أعنی۔ الحبیکۃ للوصول الی مسائل النیکۃ ۔عربی

 الاجازۃ لصاحب اللواء الرابع أبی تراب رشد اللہ شاہ الراشدی من العلامۃ
حسین بن محسن الأنصاری عربی
 المعونۃ الصمدیۃ فی رد اوھام الھدیۃ الأسدیۃ سندھی 
علم غیب کے متعلق کتاب کبیر
 کشف الأستار عن رجال معانی الآثار عربی طبع مرتین ؂
 (۱) المجاھدۃمع مدعی مشاھدہ (۲) و کاشفہ وھم مدعی مکاشفہ رد
 العزیمۃ فی الرد علی الضمیمۃ الرد علی آخر الظھر فی بحث صلاۃ
الظھر بعد الجمعۃ احتیاطاً سندھی 
 ثمر آخرت ترجمہ سفر سعادت سندھی 
 العثور علی تحقیق عدم تعیین الصلاۃ علی القبور 
 نشاط الراغبین فی تخریج صراط الطالبین عربی 
 ترجمہ پارہ عم سندھی 
 الفارقۃ بین اھل اللہ وبین المتارقۃ تصوف سندھی و اردو 
 تثابیب المسجد فی تخریج أحادیث مکاتیب عربی 
 ردود عباد الوجود سندھی الرد 
 فلق الصباح فی أن الشھادۃ مشروطۃ فی النکاح عربی 
 رفع الشکوک عن حکم المتروک اصول حدیث عربی مسائل
 الأجوبۃ الأرضیۃ عن الاعتراضات الغیر الرضیۃ الرد عربی 
 التنقید المعقول فی رد تسوید المجھول الرد 
 ھدیہ القلامس بحکم لبس القلانس
 جودۃ النظر فی حکم لبس الأحمر
 الحکم الأسفر فی جواز لبس ثوب الأصفر
 القول المضبوط فی حکم الحریر المخلوط 
 التقریر المعلٰی فی أن حدیث أفطر الحاجم والمحجوم منسوخ أم لا 
العثور علی تحقیق عدم تعیین مدۃ الصلاۃ علی القبور 
 دفع الضنک عن مسئلۃ الضحک 
 الفتوی والرد فی بحث الوتر
 الاعتناء فی تحقیق نحو مسئلۃ الاستوء
 الحکم التام فی اثبات اسلام ابوی خیر الأنام علیہ الصلاۃ والسلام
القول الأمتن فی حکم التتن الأنتن
 التقریر السنی فی تحریر طھارۃ المنی
 تقریر الجواب عن تزویر الساب 
ملفوظات سید رشد اللہ شاہ راشدی 
 مفتاح رشد اللہ تفسیر 

تصانیف المحدث العلامۃ سید رشداﷲ شاہ راشدی رحمہ اللہ



شیخ رشداللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ اپنے دور کے بہت بڑے محدث تھے جن کی مختلف میدان میں قابل رشک خدمات ہیں اس مضمون میں ان کی قیمتی ترین ۳۴تصانیف کے نام پیش خدمت ہیں یاد رہے ان تمام کتب میں صرف ایک کتاب شایع ہوئی باقی تمام کتب مخطوطات ہیں جن پر 
سید انور شاہ راشدی حفظہ اللہ تحقیقات کر کے شایع کریں گے ان شاٗ اللہ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 

اسرۃ راشدیۃ قدیمۃ جدا مضی فیھا کثیر  من العلمائ والمحدثین والمصنفین والمبلغین الآن انا اذکر
 مولفات الشیخ الامام الاجل السید رشداللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ جد الشیخ بدیع الدین و محب اللہ رحمھما للہ
وکان مصنفا بالغا و ولہ تالیفات مفیدۃ جدا فی العربیۃ والسندیۃ و الفارسیۃ والاردیۃ لکن مع الاسف ما طبع منھا الا واحدا الی الآن ۔کل مخطوطات المصنف رحمہ اللہ محفوظۃ عند الشیخ السید قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ الآن اخونا السید انور شاہ راشدی رحمہ اللہ یعمل علی کتب محدثی اسرتہ و سیطبع کل کتاب ان شائ اللہ۔
ھذہ فھرس کتب الشیخ رشداللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ


فصل الخطاب فی ارشاد المعزی والمصاب ۔ فارسی ۔مسائل
 اللمعات ۔تصوف۔سندھ
 ملفوظات ۔ المسمیٰ ۔ تنویرالقلوب وصراط المطلوب ۔سندھی
 متوی متعلق بالذبح ۔عربی وفارسی
 الأعجوبۃ الرضیۃ ۔عربی
القریٰ لمصلی الجمعۃ فی المدن والقری۔عربی الرل علی الأحناف
 کتاب الأعلام بروایۃ الامام ابی حنیفۃ۔عربی رجال
 بیاض سید رشداﷲ شاہ ۔عربی 
درج الدرر فی وضع الایدی علی الصدر ۔عربی الرد علی کتاب
درھم الصرۃ فی وضع الیدین تحت السرۃ۔ وھوکتاب نفیس
 کشف الحقیقۃ عن احکام العقیقۃ ۔أعنی۔ الحبیکۃ للوصول الی مسائل النیکۃ ۔عربی
 الاجازۃ لصاحب اللواء الرابع أبی تراب رشد اللہ شاہ الراشدی من العلامۃ
حسین بن محسن الأنصاری عربی
 المعونۃ الصمدیۃ فی رد اوھام الھدیۃ الأسدیۃ سندھی 
علم غیب کے متعلق کتاب کبیر
 کشف الأستار عن رجال معانی الآثار عربی طبع مرتین ؂
 (۱) المجاھدۃمع مدعی مشاھدہ (۲) و کاشفہ وھم مدعی مکاشفہ رد
 العزیمۃ فی الرد علی الضمیمۃ الرد علی آخر الظھر فی بحث صلاۃ
الظھر بعد الجمعۃ احتیاطاً سندھی 
 ثمر آخرت ترجمہ سفر سعادت سندھی 
 العثور علی تحقیق عدم تعیین الصلاۃ علی القبور 
 نشاط الراغبین فی تخریج صراط الطالبین عربی 
 ترجمہ پارہ عم سندھی 
 الفارقۃ بین اھل اللہ وبین المتارقۃ تصوف سندھی و اردو 
 تثابیب المسجد فی تخریج أحادیث مکاتیب عربی 
 ردود عباد الوجود سندھی الرد 
 فلق الصباح فی أن الشھادۃ مشروطۃ فی النکاح عربی 
 رفع الشکوک عن حکم المتروک اصول حدیث عربی مسائل
 الأجوبۃ الأرضیۃ عن الاعتراضات الغیر الرضیۃ الرد عربی 
 التنقید المعقول فی رد تسوید المجھول الرد 
 ھدیہ القلامس بحکم لبس القلانس
 جودۃ النظر فی حکم لبس الأحمر
 الحکم الأسفر فی جواز لبس ثوب الأصفر
 القول المضبوط فی حکم الحریر المخلوط 
 التقریر المعلٰی فی أن حدیث أفطر الحاجم والمحجوم منسوخ أم لا 
العثور علی تحقیق عدم تعیین مدۃ الصلاۃ علی القبور 
 دفع الضنک عن مسئلۃ الضحک 
 الفتوی والرد فی بحث الوتر
 الاعتناء فی تحقیق نحو مسئلۃ الاستوء
 الحکم التام فی اثبات اسلام ابوی خیر الأنام علیہ الصلاۃ والسلام
القول الأمتن فی حکم التتن الأنتن
 التقریر السنی فی تحریر طھارۃ المنی
 تقریر الجواب عن تزویر الساب 
ملفوظات سید رشد اللہ شاہ راشدی 
 مفتاح رشد اللہ تفسیر 


Sunday, 24 February 2013

پیر جھنڈا ایک لقب ہے سندھ کے مشہور سلفی خاندان راشدی کا ۔

پیر جھنڈا ایک لقب ہے سندھ کے مشہور سلفی خاندان راشدی کا ۔
لفظ پیر سے  کسی کو گمراہ پیر کا وہم نہ ہوبلکہ اللہ کی توفیق سے اس سلفی راشدی پیر جھنڈا خاندان کی شرک و بدعت کے خلاف کئی صدیوں سے محنتیں جاری ہیں بلکہ صوبہ سندھ میں شرک کو مٹانے میں سب سے اہم کردار اسی راشدی خاندان کا ہے والحمدللہ
شیخ بدیع الدین ،شیخ محب اللہ ،شیخ احسان اللہ ،شیخ رشداللہ ،شیخ رشید الدین اور شیخ راشد رحمھم اللہ اور موجودہ راشدی علما دن رات قرآن وحدیث کو عام کر رہے ہیں جس پر پوری دنیا شاہد ہے والحمدللہ

Saturday, 23 February 2013

علامہ سید ابواحسان اللہ قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ

 
آپ محدث العصر شیخ محب اللہ رحمہ اللہ کے فرزند ارجمند ہیں اور اپنے والد ماجد کے تمام تصنیفی کاموں میں معاون رہے ۔اور پوری زندگی تن تنھا مدرسہ ۔مکتبہ اورتمام انتظامی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ،ان کے کارناموں میں سب سے پہلا یہی کارنامہ ہے ۔پھر علوم وفنون خصوصا اصول حدیث اور رجال میں نہایت پختہ ہیں ساری زندگی مدرسے میں مدرس بھی رہے اور اپنے بزرگوں کی قیمتی کتب جو مخطوطات کی صورت موجود تھیں ان کی حفاظت میں بڑی محنت کی کہ ہر ہر کتاب کو خوداپنے قلم سے خوش خط لکھا اور ہر ہر صفحے کی سونے سے بڑھ کر قدر کی اور ان کی توجہ اور محنت کا ہی نتیجہ ہے کہ راشدی خاندان کا تمام علمی ورثہ(مکتبۃ العالیہ العلمیہ ،مدرسہ دارالرشاد ۔مخطوطات کی صورت میں) اب تک محفوظ ہے بلکہ مکتبہ میں نئی کتب کا بہت زیادہ اضافہ بھی کیااور مسلسل کر بھی رہے ہیں اور اپنے والد محترم کی بے شمار کتب کو اپنے بہترین خط میں بھی لکھا اور ان تعلیقات میں اضافہ جات بھی کئے ۔ان شاء اللہ جلد ہی راشدی 


ان شاء اللہ کیونکہ اس پر کام سید انور شاہ راشدی حفظہ اللہ کر رہے ہیں والحمدللہ علی ذلک خاندان کی تمام عربی کتب شایع بھی ہوں گی ۔
اور جو مخطوطات راشدی خاندان کے بزرگوں نے بہت زیادہ رقم صرف کرکے مخلتف میں کاتبوں کو بھیج کر حاصل کئے تھے ان کو بھی محفوظ رکھا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ بعض لوگوں نے بعض مخطوطات چوری بھی کیئے جس کے بعد انھوں نے مخطوطات کی حفاظت میں اور کڑی نظر کر دی ۔
سندھ اور بیرون سندھ میں تبلیغ کی خاطر سفر بھی کئے ۔
شیخ محترم کے کل چار بیٹے ہیں ان میں تین بیٹوں کو حافظ قرآن بنایا اور دو بیٹوں کو درس نظامی کی مکمل تعلیم  دلوائی اور اب وہ مدرسہ دارالارشاد اور مکتبہ وغیرہ کو احسن طریقے سے چلا رہے ہیں ۔

 ۔شیخ قاسم حفظہ اللہ ان دنوں فالج کی وجہ سے بیمار ہیں قارئین ان کے لئے خصوصی دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی ان کو مکمل شفا عطافرمائے آمین۔
بے شمار ھندو ان کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے اور پھر ان کی تعلیم و تربیت کا مستقل انتظام بھی کیا ۔
تصنیفی خدمات :
محترم نے کئی ایک مستقل کتب لکھیں مثلا
مرآۃ الشیعۃ
الرد علی التقلید
التحقیق المستحلی فی تحقیق ان عد الاذکار بالسبحۃ ھل ھو من المباحاۃام ھو من البدع السفلی

اورایک جی ایم سید سندھی شخص کے رد پر کتاب لکھی ہے۔
اور بے شمارتحقیقی موضوعات مختلف رسائل میں شایع ہوئے جن کو جمع کر کے کتابی شکل میں شایع کیا جائے گا ان شاء اللہ

Friday, 22 February 2013

بديع الدين شاه بن السيد شاه إحسان الله بن رشد الله شاه بنالسيد الشريف رشيد الدين شاه بن السيد الشريف محمد ياسين شاه بن السيد الشريف محمدراشد شاه أبو محمد الراشدي السيد الشريف الحسيني.



بقلم الدكتور صلاح الدين مقبول أحمد في مقدمة تحقيقه لكتاب ((نقض قواعد في علوم الحديث )) مع بعض التعديلات اليسيرة التي يقتضيها المقام .


ترجمة العلامة السيد بديع الدين الراشدي السندي
((1342 _ 1416 هـ ))
((1926 – 1996 م ))


فتحت بلاد السند على يد المجاهد الإسلامي محمد بن القاسم الثقفي سنة 93 هـ وعم الإسلام في جميع مناطقها خلال مدة وجيزة وانتشر فيها مذهب أهل الحديث .
زار المؤرخ الشهير الرحالة أبو عبد الله شمس الدين البشاري المقدسي السند في آخر القرن الرابع وقال في كتابه (( أحسن التقاسيم بمعرفة الأقاليم )) :
أهل الذمة في المنصورة -مدينة السند المشهورة- عباد الأصان والأوثان والمسلمون فيها أغلبهم من أهل الحديث . 
وكان جد المؤلف : السيد رشد الله شاه الراشدي الحسيني من علماء أهل الحديث من تلامذة السيد نذير حسين المحدث الدهلوي (( 1320 هـ )) والشيخ حسين بن محسن الأنصاري اليماني (( 1327هـ )) وألف عدة رسائل في اللغات العربية والسندية والأردية تأييدا لمذهب أهل الحديث في مسائل مختلفة وأنشأ ((مدرسة دار الرشاد)) وكان أغلب علماء الحديث في السند من خريجيها .
وكان أبوه : السييد إحسان الله شاه الراشدي عالما متبحرا نابغا في فن أسماء الرجال حامل لواء السنة والحديث في بلاد السند .
ولد السيد أبو محمد بديع الدين شاه الراشدي المؤلف في هذه البيئة العلمية والدينية المحافظة في 12 / 5 / 1926 م الموافق سنة 1342 هــ في قرية (( بير جهندا )) بالسند .
و تلقى تعليمه في مدرسة أسرته ((دار الرشاد)) ودرس المهمات من كتب التفسير والحديث والفقه والأصول و غيرها وحفظ القرآن الكريم في ثلاثة أشهر وعمره حينذاك ثلاث و عشرون سنة .
و أخذ الإجازة من كبار علماء الحديث في عصره أمثال الشيخ أبي محمد عبد الحق البهاولفوري المهاجر المكي و العلامة أبي الوافاءء ثناء الله الأمرتسري والحافظ محمد عبد الله الروبري وشيخ الحديث أبي إسحاق نيك محمد والعلامة المحدث أبي سعيد شرف الدين الدهلوي رحمهم الله تعالي .
و كذلك درس علي الشيخ عبيد الله السندي تفسير بعض السور لجزء (( عم )) و شيئا من فن أسماء الرجال في آخر حياته .
درّس في مدرسة أسرته عددا كبيرا من الطلبة أيام طلبه ثم أنشأ هو مدرسة باسم (( المدرسة المحمدية )) في قريته الجديدة (( نيوسعيد آباد )) ودرّس فيها في مراحلها المختلفة وفي فترات متقطعة ثم سافر إلى مكة المكرمة وألقى دروسا و محاضرات كثيرة في الحرم المكي وغيره ثم درّس سنة في دار الحديث المكية ثم انتقل إلي معهد الحرم المكي على طلب من فضيلة الشيخ عبد الهح بن حميد -رئيس مجلس القضاء الأعلي ورئيس شؤون الحرمين الشريفين حينذاك - ودرّس فيه سنتين ثم رجع إلي السند (( باكستان )) .
وكان يلقي الدروس الدعوية والعلمية و يشارك في المؤتمرات في السند وغيرها من ولايات (( باكستان )) و كان له أسلوب علمي مؤثر يتميز بالاستدلال بالكتاب والسنة في الموضوع و قد سافر إلى بلاد عديدة للحضور في المؤتمرات وإلقاء المحاضرات فيها و أتيحت له الفرصة في إلقاء الدروس في الحرم المكي و استفاد بها جم غفير من طلبة العلم و الحجاج والمعتمرين من أنحاء العالم .
و ناظر مع خصومه في الدعوة في مواضيع كثيرة مثل اتباع الكتاب والسنة والاعتصام بالعقيدة الصحيحة و رد الإشراك بالله و ترك البدع والخرافات والقضاء على العادات والتقاليد المخالفة للدين وغيرها من أصول الشريعة وفروعها . 
ركز عنايته علي التأليف والكتابة وكان معروفا بسرعة التصنيف حتي بلغت كتبه الصغيرة و الكبيرة إلي مائة و ثمانية كتب في ثلاث لغات علي النحو التالي :
ستون كتابا في العربية .
ثمانية وعشرون كتابا في السندية .
تسعة عشر كتابا في الأردية .
والفتاوي البديعية في اللغات الثلاث المذكورة .
ومن أهم كتبه المطبوعة في العربية :
السمط الإبريز حاشية مسند عمر بن عبد العزيز لابن الباغندي .
زيادة الخشوع بوضع اليدين في القيام بعد الركوع .
جلاء العينين في تخريج روايات البخاري في (( جزء رفع اليدين )) .
عين الشين بترك رفع اليدين .
إنماء الزكن فی تنقيد إنهاء السكن المسمي الأن (( نقض قواعد في علوم الحديث )) .
منجد المستجيز في أسانيده و إجازاته .
وكان تواقا إلي جمع الكتب و خاصة كتب التفسير والحديث فكوّن له مكتبة غنية عامرة بالمطبوعات القيمة والمخطوطات النادرة استفاد منها كثير من العلماء والباحثين و خاصة المشتغلين بالحديث الشريف وأصوله .
تتلمذ عليه جم غفير من الطلبة في باكستان و خارجها واستجازه كثير من طلبة العلم والعلماء فأجازهم  وإليكم أسماء بعضهم :
الشيخ علي عامر اليمني مدير دار الحديث بمكة المكرمة سابقا .
الشيخ عمر بن محمد بن عبد الله السبيل رحمه الله إمام الحرم المكي .
الشيخ عبد القادر بن حبيب الله السندي أستاذ الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة .
الشيخ الحافظ فتحي محمد رحمه الله (( هو الذي طلب منه الرد على قواعد التهانوي في علوم الحديث ) .
الشيخ عبد الرب بن فيض الله الباكستاني أستاذ دار الحديث بمكة المكرمة .
الشيخ حمدي عبد المجيد السلفي العراقي محقق المعجم الكبير للطبراني .
الشيخ بشار عواد معروف العراقي محقق معروف .
الشيخ مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله (( اليمن )) .
الشيخ عاصم بن عبد الله القريوتي أستاذ الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة .
الشيخ وصي الله بن محمد عباس أستاذ جامعة أم القري و مدرس الحرم المكي .
الشيخ سعدي بن مهدي الهاشمي أستاذ الجامعة الإسلامية بالمدينة .
الشيخ ربيع بن هادي المدخلي أستاذ الجامعة الإسلامية بالمدينة سابقا .
الشيخ عبد الرحمن بن عد الجبار الفريوائي أستاذ جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية .
و ها أنا كاتب هذه السطور (( صلاح الدين مقبول أحمد )) أحد المجازين منه رحمه الله تعالى .
وتقلد مناصب عديدة منها : 
اختير أمير حمعية أهل الحديث بباكستان .
و كان أمير جمعية أهل الحديث بالسند طول حياته .
وكان مدير (( المدرسة المحمدية )) و صاحب (( المكتبة الراشدية )) في (( نيو سعيد آباد )) .
كان خطيب المسجد الجامع لأهل الحديث فيها .
كان رحمه الله قانتا لله ورعا تقيا زاهدا في الدنيا مضيافا مع قلة ذات يده في أواخر حياته متواضعا لله طويل السكوت وقت فراغه خاصة في السفر وغيره مشغولا بتلاوة القرآن لاكريم والأوراد لا يبادر بالكلام إلا إذا سئل فإذا تكلم تكلم كالعالم المتقن .
قضي المؤلف رحمه الله حياة حافلة بالتعليم والتربية والإفتاء والتدريس والدعوة والإرشاد والبحث والمناظرة والتصنيف والتأليف وتوفي في لية الثلاثاء : 8 / 1 / 1996 م الموافق 1416 هــ بعد جهاد طويل قرب المسجد الراشدي في (( كراتشي )) و دفن في 9 / 1 / 1996 م في مقبرة أسرته (( درغاه شريف )) قرب (( نيو سعيد آباد )) (( السند )) .
اللهم اغفرله و ارحمه !!
(الدكتور ذكر في الحواشي المصادر والمراجع لكن حذفتها اكتفاء بالإحالة إليه . فمن أراد فعليه مراجعة الكتاب المذكور .)(خضرحيات)
من ھنا

Thursday, 21 February 2013

سید احسان اللہ شاہ راشدی حفظہ اللہ مدیر مدرسہ دارالرشاد

مدیر اعلی مدرسہ دارالرشاد 
 شیخ احسان اللہ شاہ راشدی حفظہ اللہ بن قاسم شاہ بن محب اللہ شاہ راشدی
محترم قوی عالم دین ہیں اور مدرس بھی ہیں جامعہ کی تمام ذمہ داریاں ان پر ہیں بہت محنتی ہیں ان کی محنت کی وجہ سے مدرسہ اور مسجد کی نئی بلڈنگ آخری مراحل میں ہے والحمدللہ اور مدرسہ میں شعبہ درس نظامی میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں ۔
مدرسہ کے حوالے سے رابطہ ان سے کیا جا سکتا ہے ۔
رابطہ نمبر03003003904 

مدرسہ دارالرشاد پیر جھنڈا اور اس میں مدرسین کی ٹیم


یہ وہ تاریخی مدرسہ ہے جس کی بنیاد شیخ رشد اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے1903 میں رکھی اور پہلے استاد امام انقلاب علامہ عبیداللہ سندھی رحمہ اللہ کو مقرر کیا اس مدرسے کی شہرت چہار سو پھیل گئی یہاں تک کہ اس جامعہ کی زیارت کے لئے دیوبند کے علماء اشرف علی تھانوی ،انور شاہ کشمیری ،وغیرہ بھی آیا کرتے تھے ۔سندھ میں اس مدرسہ کو ام المدارس کہا جاتا ہے کیونکہ موجودہ تمام مدارس اسی مدرسے سے شروع ہوئے اورتمام علماء سندھ اسی مدرسے سے فیض یافتہ ہیں ۔اور اس مدرسہ سے پوری دنیا(افریقہ ،عرب ،یمن، ھندوستان وغیرہ) کے علماء نے مختلف وقتوں میں فائدہ اٹھا یا ۔والحمدللہ ۔آج سے تیرہ سال پہلے اس جامعہ کو دیکھنے کا پہلی بار موقع ملا اس وقت صر ایک بپہت بڑی مسجد ہی تھی لیکن اب بہترین خوبصورت نئی مسجد تعمیر کے آخری مراحل میں ہے اور تقریبا دو ایکڑ پر مشتمل خوبصورت مدرسہ دارالرشاد کی تعمیر بھی مکمل ہو چکی ہے اور کچھ باقی ہے ۔
یہ مدرسہ اپنی ایک مستقل تاریخ رکھتا ہے اللہ کرے کہ اسپر مستقل کام ہو ،یہ وہی مدرسہ ہے جس سے محدثین کی جماعت تیار ہوئی ۔ والحمدللہ ۔۔اور اس مدرسہ پر کچھ  نشیب وفراز آتے رہے لیکن اب دوبارہ نئے عزم سے اس میں علوم اسلامیہ کی تدریس شروع ہے درس نظامی سات سالہ کورس ،شعبہ حفظ ،شعبہ نشرواشاعت اور شعبہ دعوت و تبلیغ کام کر رہے ہیں آٹھ اساتذہ مدرسہ میں دن رات محنت کر رہے ہیں اور فتوی نویسی کاشعبہ الگ مستقل قائم کیا گیا ہے بلکہ لوگوں کے لئے اسلامی عدالت بھی قائم ہے جہاں مختلف علاقوں کے لوگ اپنے فیصلے قرآن وحدیث کے مطابق کرواتے ہیں ۔
اس جامعہ کے نگران شیخ رشداللہ پھر شیخ احسان اللہ پھر شیخ محب اللہ رحمھم اللہ اپنے وقتوں میں رہے اب رئیس الجامعہ شیخ علامہ قاسم بن محب اللہ حفظہ اللہ ہیں اب شیخ قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ فالج کی وجہ سے بیمار ہیں اور ان کے بیٹے سارے نظام کو باحسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں مثلا
مدیر اعلی شیخ احسان اللہ شاہ راشدی حفظہ اللہ بن قاسم شاہ بن محب اللہ شاہ راشدی
محترم قوی عالم دین ہیں اور مدرس بھی ہیں جامعہ کی تمام ذمہ داریاں ان پر ہیں بہت محنتی ہیں ان کی محنت کی وجہ سے مدرسہ اور مسجد کی نئی بلڈنگ آخری مراحل میں ہے والحمدللہ اور مدرسہ میں شعبہ درس نظامی میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں ۔انتہائی خوش اخلاق ہیں
اور نائب مدیر تعلیم شیخ انور شاہ راشدی حفظہ اللہ ہیں
اورشیخ نصر اللہ حفظہ اللہ مدرسہ کے مفتی ہیں اور قابل ترین شخصیت ہیں ۔لوگوں کے مسائل حل کرنے اور انھیں فتوی ان کی ذمہ داری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مدرس بھی ہیں
 شیخ فضل اللہ شاہ راشدی حفظہ اللہ بن قاسم بن محب اللہ شاہ راشدی محترم قاری ہیں اور مدرسہ میں شعبہ حفظ کے استاد ہیں
اور شیخ بقا شاہ راشدی حفظھم اللہ قابل اور محنتی ساتھی ہیں جامعہ میں تدریس کے فرائض سر انجام دے رہے محنت سے پڑھاتے ہیں بہت ذہین ہیں ۔
کی خدمات بھی جامعہ کو حاصل ہیں ۔اس مدرسہ سے اہل سندھ کو مستفید ہونا چاہئے اور اپنے بچے اس میں داخل کروا کے انھیں دین کا داعی بنائیں ۔

رسالۃ وصلتنی حول ترجمۃ الشیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ

الأخ الفاضل
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
قرأت موضوعكم عن حفيد الشيخ محب الدين الراشدي
وأنا منذ سنوات أبحث عن ترجمة الشيخ محب الدين الراشدي
مولده شيوخه سماعاته مناصبه مؤلفاته
وغير ذلك
فأرجو أن أجد عندكم بغيتي
وأرجو إن تيسر ذلك معكم
مراسلتي على بريدي الإلكتروني
abu_alhajaj@hotmail.com

جزاكم الله خيرا
محبكم أبو الحجاج يوسف بن أحمد آل علاوي الأردني

راشدی خاندان کے اہل علم سید ابوالمحبوب انور شاہ راشدی حفظہ اللہ :قسط ۱


تالیف:ابن بشیر الحسینوی الاثری
ضلع مٹیاری میں مشہور شہر نیو سعید آباد کے پانچ کلو میڑ کے فاصلے پر پیر جھنڈا گاوں واقع ہیں ۔
یہ گاوں کروڑوں افراد پر مشتمل ایک شہر نہیں بلکہ بالکل چھوٹا سا گاؤں ہے جس میں  ساٹھ گھر اور تین سو افراد ہوں گے۔ سبحان اللہ ۔اتنا چھوٹا گاؤں اور اتنی بڑی تاریخ اور محدثین کی پیدائش گاہ۔ سبحان اللہ۔ شاید ایسی کوئی مثال پوری روئے زمین میں نہ ملے ۔۔اس گاوں کے راشدی خاندان کی خدمات پوری دنیا میں معروف ہیں اور انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس گاوں کے محدثین کی تاریخ پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جارہا ہے مثلا بحرالعلوم کےشیخ العرب والعرب نمبراور محدث العصر نمبر ملاحظہ فرمائیں کہ اس بالکل چھوٹے سے گاوں میں کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے ؟؟ 
اس مضمون میں اس عظیم خاندان کے موجودہ اہل علم کا تعارف پیش خدمت ہے :میر ی مراد  علامہ سید انور شاہ راشدی بن علامہ قاسم بن محدث العصر محب اللہ شاہ راشدی ہیں 
راشدی خاندان کے موجودہ محقق اور اس علمی خاندان کے حقیقی جانشین میری مراد علامہ ابوالمحبوب سید انور شاہ راشدی حفظہ اللہ ہیں ہمارے ممدوح اما م الجرح والتعدیل شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ کے پوتے ہیں ان کے متعلق چند گزارشات پیش خدمت ہیں ۔
تاریخ پیدائش :

محترم ۵ دسمبر ۱۹۸۵کو اپنے آبائی گاوں درگاہ شریف پیر جھنڈا میں پیدا ہوئے ۔

ابتدائی تعلیم :

عام معمول کے مطابق قرآن کریم اور ابتدائی تعلیم اپنے مدرسہ دارالرشاد پیر جھنڈا میں حاصل کی اور قرآن کریم حفظ بھی یہیں کیا ۔یہ وہی مدرسہ ہے جہاں سے کئی ایک محدثین نے تعلیم حاصل کی جن کے تذکرہ کے لئے ایک مستقل تاریخ کی ضرورت ہے ۔اللھم یسر لی ۔

زمانہ بچپن میں جو محترم نے دیکھا !

ہمارے ممدوح بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت بالکل چھوٹا سا بچہ تھا تقریبا پانچ یا چھ سال عمر تھی میرے دادا امجد رحمہ اللہ دن رات پڑھنے ،پڑھانے اور لکھنے میں مصروف رہتے تھے ایک دفعہ دیگر ممالک سے عربی طلباء کی ایک جماعت دادا جی کے پاس تشریف لائی اور کئی سال پڑہتے رہے دادا جی انھیں مختلف علوم وفنون کی کتب پڑھانے کے ساتھ ساتھ صحیح بخاری بھی پڑھاتے تھے اور دادا جی ان کو عربی زبان میں پڑھاتے تھے اور بالکل آہستہ آہستہ بولتے تھے طلباء جتنے مرضی سوال کرتے دادا جی ان کے جواب بڑی خوشی سے دیتے تھے ،محترم ہمارے ممدوح کہتے ہیں کہ ایک دفعہ علامہ فیض الرحمن ثوری رحمہ اللہ تشریف لائے اور اس وقت دادا جی کے پاس کئی ایک طلباء موجود تھے تو ثوری رحمہ اللہ نے انھیں مخاطب کرکے فرمایا :تم نے شیخ محب اللہ شاہ راشدی کو ضایع کر دیا ہے اور ان سے جو کام لینا چاہئے تھا وہ تم نہیں لے سکے ۔اور ہمارے ممدوح کہتے ہیں کہ اگر داد ا جی سے کام لیا جاتا تو وہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی طرح کے بڑے بڑے کام کرتے ۔دادا جی اکیلے ہوتے تھے یا ان کے ساتھ والد محترم سید قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ ہوتے تھے اور ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں ۔ابھی ہمارے ممدوح زمانہ بچپن میں ہی تھے کہ شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ وفات پاگئے اب سار ا بوجھ والد محترم پر ہی تھا مدرسہ کی ذمہ داریاں ،مکتبہ کی نگرانی اور جماعتی احباب کے دیگر کاموں میں شریک ہونا مدرسہ درالرشاد چلاتے رہے لیکن پھر بعض وجوہات کی بنا پر صرف شعبہ حفظ ہی رکھنا پڑا اور درس نظامی کا شعبہ ختم کردیا گیا ۔

درس نظامی کی تکمیل:

درس نظامی کی تعلیم کے لئے صادق آباد حافظ ثناء اللہ زاہدی حفظہ اللہ کے جامعہ میں داخلہ لیااور پانچ سال وہاں پڑھے پھر اپنے مدرسہ دارالرشاد سے سند فراغت حاصل کی ۔والحمدللہ ۔محترم بیان کرتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں مجھے زیادہ پڑھنے کا شوق نہیں تھا بس تھوڑا بہتا درسی کتب تک ہی محدود مطالعہ رہتا تھا آگے نکلنے کا کوئی شوق نہیں تھا لیکن اتنا اللہ تعالی کا فضل تھا کہ عربی عبارت پڑھنے اور سمجھنے میں کافی مہارت تھی ۔

تحقیقی ذوق کیسے پیدا ہوا؟!

محترم بیان کرتے ہیں کہ جب میں درس نظامی سے فارغ ہو کر گاوں واپس آیا تو کوئی خاص مصروفیت نہیں تھی والد محترم نے میری شادی کر دی اور ایک دن مجھے مخاطب کرکے کہا کہ پڑھنا شروع کر دو اتنی لائبریری کس کام کی کیا دوسرے لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں اور تم کچھ نہیں کروگے اگر تم نے لائبریری سے فائدہ نہیں اٹھانا تو میں یہ ساری لائبریری کسی کو دے دیتا ہوں !اور کافی سمجھایا کہ راشدی خاندان میں کوئی عالم دین رہا ہمارے بعد کھڑے ہو جاو اور محنت کرنا شروع کردو ۔!!
محترم کہتے ہیں اس ڈانٹ کے بعد میں نے عزم مصمم کرلیا کہ اب ایک منٹ بھی ضایع نہیں کرنا،اور اپنے والد محترم سے کہا کہ حکم دو میں کیا کروں ؟تو والد صاحب نے کہا نماز جنازہ میں سلام ایک طرف کہنا ہے یا دونوں طرف ان روایات کو تلاش کرو اور تحقیق کرو صحیح ہیں یا ضعیف ساری بحوث دیکھو! رواۃ پر بھی تحقیق کرو اسانید کو جمع کرواور جلدی مجھے دکھاو ؟؟
محترم کہتے ہیں :کہ میں اللہ تعالی کانام لے کر لائبریری میں داخل ہوا کئی دن لگا کر احادیث کو تلاش کیا پھر ایک رواۃ کی تحقیق کرنی تھی تو ایک راوی کو تلاش کرنے میں ایک مہینہ محنت کی پھر جا کر پہلا راوی تلاش ہوا ابو جی سے ساری مشکلات بیان کیں انھوں نے سمجھایا کہ اس طریقے سے راوی تلاش کرنا ہے وغیرہ وغیرہ ۔محترم کہتے ہیں کہ ایک ماہ کی محنت سے کافی کتب رجال اور کتب حدیث کا اچھا خاصہ تعارف ہوگیا اور اب رواۃ بھی ملنے لگے اور جو کام ایک ماہ میں نہ ہوا وہ چند گھنٹے میں ہونے لگا پھر میرا اوڑھنا بچھونا علم ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔  بس اس کے بعد اللہ تعالی نے ساری راہیں کھول دیں ۔تحقیقی مضامین لکھنے کا سلسلہ شروع کردیا جو اللہ کی توفیق سے جاری ہے ۔

محترم سے راقم کا تعارف اور ملاقات!

ہمارے جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور میں ششماہی امتحان کے بعد چھٹیاں تھیں ان چھٹیوں کو غنیمت جانتے ہوئے علمی سفر کا پروگرام بنا اور راقم 8فروری 2013بروز جمعۃ المبارک کو جمعہ کے خطبہ دے کر پتوکی پہنچا اور علامہ اقبال ریل گاڑی کے ذریعے پورے دو بجے سفر شروع ہوا ۔اور سفر پر سکون اور آرام دہ تھا والحمدللہ علی ذلک اور ریل گاڑی چار بج کر تیس منٹ پر نواب شاہ اسٹیشن پر رکی ۔دوران سفر محترم سید انور شاہ راشدی حسینی حفظہ اللہ کا مجھ سے مسلسل را بطہ تھا چنانچہ وہ بھی پونے پانچ کے قریب تہجد کے وقت مجھے لینے کے لئے اپنی کار پر نواب شاہ پہنچ گئے فجزاہ اللہ خیرا ۔ان سے میری پہلی ملاقات تھی ویسے پانچ ماہ سے فون پر رابطہ تھا اور اکثر بیشترتحقیقی اور تصنیفی امور پر مشاورت جاری تھی(فون پر بے شمار علمی فوائد پر تبادلہ خیال ہواوہ ایک الگ داستان ہے کبھی وہ بھی لکھی جائے گی ان شاء اللہ ) ان کی باتوں سے لگتا تھا کہ علوم میں بہت پختہ اور وسیع المطالعہ اور محنتی ہیں اگرمیں نے کسی کتاب کی طرف اشارہ کیا اور ان کے پاس وہ نہیں تو اسی وقت خرید لیتے مثلا المرسل الخفی از شریف حاتم العونی ،الجامع فی الفوائد والعلل از ماہر یسین الفحل ،نثل النبال از ابواسحاق الحوینی اور معجم اسامی الرواۃ از شیخ البانی رحمہ اللہ وغیرہ ۔پھر خرید ی ہی نہیں بلکہ اس کو بالاستیعاب پڑھا بھی اور مطالعہ بھی عام نہیں کیا بلکہ تنقیدی نظر سے کیا اور اپنے حواشی بھی لگائے کیونکہ بعض لوگوں کو کتب خریدنے کا تو شوق ہوتا ہے لیکن مطالعہ ان کی قسمت میں نہیں ہوتا ۔ہمارے موصوف اس وصف بد سے بری ہیں والحمدللہ۔

شیخ انور شاہ راشدی حفظہ اللہ اور فن جرح وتعدیل اہل علم کی شہادتیں :

ابھی ان کی عمر اٹھائیس سال ہے کیونکہ ان کی تاریخ پیدائش ۵دسمبر۱۹۸۵ ہے اور جو گمان تھا اس سے کہیں زیادہ آگے پایا ۔میں اپنی بات کی تائید میں کچھ شہادتیں بھی پیش کرنا چاہتا ہوں ۔
مثلا پروفیسر مولا بخش محمدی حفظہ اللہ لکھتے ہیں : بالخصوص علامہ سید قاسم شاہ راشدی مد ظلہ تعالی اور اس کے اعلی علم حدیث و رجال کے ذوق کے مالک فرزند ارجمند محترم سید انور شاہ صاحب۔۔۔(مقدمہ فتاوی راشدیہ جلد۱صفحہ۱۳)
استاد محترم شیخ زبیر علیزئی حفظہ اللہ نے محترم سے کہا کہ اسی طرح محنت کرتے رہو اللہ تعالی تمہیں راشدی خاندان کا جان نشین بنائے گا ان شاء اللہ ۔
بلکہ شیخ انور حفظہ اللہ کے والد محترم فضیلۃ الشیخ علامہ قاسم شاہ راشدی حفظہ اللہ اپنے قابل فرزند ارجمند کے متعلق کہتے ہیں کہ میرے بیٹے کا انداز اس کے دادا جان کی مثل ہے اورلکھنے کا انداز محدثانہ ہے ۔
اسی طرح راقم نے سندھ میں بے شمار علماء سے ان کی تعریف سنی مثلا شیخ نصرا للہ حفظہ اللہ صدر مدرس مدرسہ دالرشاد پیر جھنڈانے مجھے کہا :محترم انور شاہ راشدی حفظہ اللہ ہر وقت پڑھتے رہتے ہیں اور علم رجال اور علم حدیث ان کا خاص موضوع ہے اور اس پر کافی لکھ بھی رہے ہیں ۔

محترم شیخ خبیب احمد حفظہ اللہ نے کہا کہ محترم انور شاہ صاحب انتہائی قابل تعریف آدمی ہیں اور فن حدیث اور رجال میں بہت پختہ اور صاحب رائے ہیں ۔
شیخ عبدالقادر رحمانی سندھی مدرس شمس العلوم بدین نے مجھے کہا کہ میں شیخ کے مضامین پڑھتا رہتا ہوں ماشاء اللہ محقق انسان ہیں اور کافی محنت سے لکھتے ہیں ۔
راقم نے بھی ان میں فن حدیث ،علوم حدیث اور فن رجال میں پختگی دیکھی اور کافی وسیع المطالعہ ہیں ایک راوی کی تحقیق میں تمام کتب رجال کو کھنگالتے ہیں اور بہت زیادہ محنت کرتے ہیں ۔اس پر بے شمار مثالیں موجود ہیں آپ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ محترم اب تک کئی ایک اہم کتب فن رجال پر تالیف کر چکے ہیں مثلاتراجم شیوخ ابی عوانہ ،اسی طرح وہ رواۃ جن کے متعلق شیخ البانی رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھے نہیں ملا تو ان کو تلاش کیا ہے اور یہ بھی ایک مستقل کتاب ہے اسی طرح اسن کے دادا امجد شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے بھی کئی ایک تراجم کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مجھے نہیں ملے ان پر بھی ایک قیمتی رسالہ مکمل کر چکے ہیں والحمدللہ ۔

تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں !

یہ اللہ تعالی کی نعمتیں ہیں جس پر چاہتا ہے کرتا ہے 
پیر جھنڈا پر اللہ تعالی کی بے شمار انعام و کرام ہیں ان تمام پر ہمارا کوئی کمال نہیں یہ سب اللہ تعالی کی ہی نعمتیں ہیں اس پر ہم اللہ تعالی ہی کی تعریف کرتے ہیں ۔